Sunday 8 May 2016

‎عثمانیہ ریسٹورینٹ - سُپر ہائی وے کراچی کا کامیاب تجربہ‎

عثمانیہ ریسٹورینٹ - سُپر ہائی وے کراچی
مقام: کراچی سے حیدرآباد کی سمت ٹول پلازہ سے ۱۰ منٹ کے سفر پہ بائی جانب (بحریہ ٹاون سے چند قدموں پہلے)
مناسب وقت: رات ۸ سے ۱۱کے درمیان
انتظامات: ماحول خوش گوارومحفوظ، نشستی مناسب انتظامات (فلحال بچوں کے لیے تفریح کا انتظام نہیں)
کھانے کا معیار: ذائقہ لزیز، معیار بہترین
آفیشلز،فیملی و دوستوں کی محفل کے لیے موضوع ترین
اخراجاتی زاویہ: انتہائی مناسب
ًٍ- مشہور جملہ ہے کہ انسان سفر کرنے کے لیے کھانا کھایا کرتا تھا جبکہ آج کل کے لوگوں نے روایت تبدیل کرتے ہوئے کھانے کے لیے سفر کرنا شروع کر دیا ہے
عثمانیہ ریسٹورینٹ - سُپر ہائی وے کراچی میں واقع نخلستان میں چمن کی مانند مصرفیات و فکرات سے دوراطمینان، سکون،کھانے و وقت گزارنے کی مناسب جگہ ہے جوکراچی سے حیدرآباد کی سمت ٹول پلازہ سے ۱۰ منٹ کے سفر پہ بائی جانب (بحریہ ٹاون سے چند قدموں پہلے) واقع ہے، کافی عرصے سے شعوری زندگی سے مطلق دوست یہ پلان کر رہے تھے کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے کہ جہاں زیادہ سے زیادہ وقت ساتھ گزارا جائے اور اسی بہانے ساتھ بیٹھنے اور کھانے کا موقع بھی میسر آجائے گا، اس سوچ نے کہی جگہوں کا نام تجویز کیا پر ہر ایک سے ہم واقف اور بری طرح اکتا چکے تھے، ان جگہوں میں دو دریا، بوٹ بیسن، حسین آباد، ملیر شامل تھا اتفاق سے زین بابا نے رائے دی کیوں نا اس بار ہائی وے کو آزمایا جائے، سوال پھروہی تھا کہ ہائی وے کا ایک سرا کراچی اور دوسرا اسلام آباد ہے بھلا کوئی ایسا فاصلہ رکھا جائے کہ جہاں لُونگ ڈراو بھی ہو وقتِ مناسب پہ واپسی بھی، مختلف ناموں کی تجویز آئی اُن میں ایک نام ذوہیر نے عثمانیہ ریسٹورینٹ کا دیا جسے ہم کراچی میں بیت المکرم سے عقب میں موجود عثمانیہ ریسٹورینٹ کی شاخ سمجھے(اس عثمانیہ ریسٹورینٹ کی ایک شاخ مری مال روڈ پہ بھی موجود ہے)، اس پہ بابا نے احسن کمال کے شبے کا ازالہ کیا اور اس جگہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی تعریف و اپنے تجربے کا اظہار بھی کیا،بلاآخر شب ِ اتوا ر ہم دلچسپ آغاز کے ساتھ کمالے سے مزے کی چسکیاں لیتے ہوئے تلاش و بسیار کے بعد بلاآخرعثمانیہ ریسٹورینٹ پہنچ ہی گئے پر راستے میں ہونے والی مڈ بھیڑ میں سے یہ بھی تھا کہ ہم میں سے چونکہ صرف زین بابا ہی اُس جگہ اور اُس کے ذائقہ سے واقف ہیں تو کیوں نہ ہم اپنے مزہ کو بے مزہ تجربے میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی اپنا ارادہ ترک کریں اور راستے میں موجود واقف جگہوں جیسے الحبیب،سجاد وغیرہ پہ ہی جا کر وہی ذائقہ و مزہ لیں پر ساتھی دوست (بابا) کا یہ جملہ کانوں میں گنجتا محسوس ہوتا تھا کہ ایک دفعہ وہاں جاکر کھانا بنتے دیکھ تو لوں اگر پسند نہ آئے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا تجربہ؟ لیکن اگر جگہ اور کھانا پسند آئے تو پھر کیا ہوگا؟ صرف یہ سوچ(ہماری دوستی کو الحمدللہ ۶ سال بیت گئے ہمیں اندازہ تو ہے کہ زین کھانے کے ذائقہ کی متعلق کبھی سمجھوتہ نہیں کرنے والا خیر بس اِسی ہاں و ناں میں بلاآخر ہم اپنی منزلِ مقصد پہ پہنچ ہی گئے،پارکنگ کا ماقول انتظام تھا انگڑائی لیتے ہوئے سواری سے باہر آئے)۔۔۔ پہلی نظر جیسی ہی ریسٹورینٹ کے ماحول و اطراف کے پُرسکون انتظامات پہ پڑی تو محسوس ہوا کہ تجربہ کامیاب ہونے جا رہا ہے، ہم بیٹھک میں تشریف رکھنے سے پہلے ریسٹورینٹ کے باورچی خانے میں داخل ہوئے اور انتہائی خوش گو خانصامہ کو اپنا آرڈر لکھوایا،اپنے ہاتھوں مٹن(کڑاہی کے لیے)، چکن(بلوچی تکہ کے لیے)ا ور مچھلی خانصامہ کے سُپرد کی 

اسی دوران ہماری بیٹھک پہ معمورذمہ دار نے ہمیں انتہائی محبت اور چہرے کے مسرت نما تاثر کے ساتھ جگہ دی اور دورانِ انتظار کہوے کی پیشکش کی جسے ہم نے قبول کیا اور منٹوں میں کہوا ہمارے گوش گزار کر دیا گیا، کہوے کا انداز ومزہ بلوچ طرز پہ تھا، انتظار کے دورانیہ وقت میں روز مرہ کی زندگی تعلیمی و کاروباری زندگی پہ بات و لفظوں کی تکرار ہوئی اور وقت پتہ ہی نہ چلا 



اور ہمارا کھانا تیا ر ہوکر ہمارے سامنے تھا، ابھی ڈھکے برتن کھولے ہی تھے کہ بابا نے اپنا موبائل نکالا اور یوں تصویروں اور سیلفی کا دور دورا ہوا، میں نے آغاز میں پہلے تیار اشیاء کا جائزہ و خوشبو سے اپنے آپ کو لطف اندوز کیا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ آغاز کر دیا، سب سے پہلے تمام دوست مچھلی پہ ٹوٹے اور روکھی ہی -ساری مچھلی کھاڈالی میرے ذاتی تجربے میں ایسی نرم و ذائقہ دار مچھلی بہت ہی کم آئی ہے


 اور صرف میں ہی نہیں بلکہ تمام ہی کی یہ رائے تھی ساتھ سیون اپ نےبھی کمال کر دیا تھا، اب ہم دوستوں کے ہاتھ کشمیری مٹن کڑاہی اور کچھ کے بلوچی چکن تکہ کی جانب بڑھے، میرا ہاتھ بلوچی چکن تکہ کی جانب تھا میں نے ابتداً تھوڑا لیا اور مجھے اُس کا ذائقہ بہت زیادہ مرعوب نہ کر سکا گو کہ تمام دوست واہ واہ واہ کر رہے تھے اور ذائقہ بھی کوئی بُرا نہ تھا ایک نیا تجربہ ایک نئی ڈش تھی (اِس کی شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ میں
                                                                 
  (  روکھی اشیاء کم پسند کرتا ہوں کیونکہ خاندانی ذائقہ ہمارا تر اشیا ء کا
 خیر اب صرف ایک ممکنہ صورت تھی اور وہ تھی مٹن کڑاہی دیکھنے میں تو لزیز معلوم ہو رہی تھی گوشت بھی اچھا دیکھائی دے رہا تھا میں نے اس اُمید سے لقمہ لیا کہ بس اب یہی اُمید ہے اور واقعی کیا عالی شان کشمیری مٹن کڑاہی تھی(گہی سے بنی روٹیاں بھی کمال کی تھی)۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔گوشت کا ذائقہ تو میں اس کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ ملک پاکستان کے ۴ صوبوں ۲ ریاستوں کے اکثر حصوں میں کئی بارمیں مٹر گشتی کرنے کے باوجودمیں نے آج تک ایسا مٹن نہیں کھایا (مزے کی بات یہ بھی ہے کہ میں ابھی بھی اُس کا مزہ اپنے منہ میں محسوس کر سکتا ہوں)

 جب دوست پرانے اور باتیں نئی ہوں تووقت اور کھانے دونوں کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے ہم نے رج کے کھانے کا مزہ و لطف لیا ساتھ میں پہلی بار مالش نے بھی جسم کو سرور دیا، آخر میں جب جیب خالی کرنے کی باری آئی تو واقعی جتنا ہم نے تناول کیا اُس اعتبار سے بہت مناسب تھا
میں ان تمام دوستوں کو یہی ریفر کروں گا کہ جو اچھے وقت و اچھی چیز کے متالاشی ہیں وہ ضرور ایک بار اس جگہ کو آزمائے اور اپنا تجربہ ہم تمام سے ساتھ شیئر کریں

No comments:

Post a Comment

I travelled today about 14 km on Sharah e Faisal Karachi during Aftari hours , i found 140 peoples or groups sharing or managing aftari for ...